(ملکہ سبا---(بلقیس)
لفظ بلقیس کس طرح وجود میں آیا۔ اس لفظ کے معنی کیا ہیں ۔
نام بلقیس۔ یہ نام توریت سے لیا گیا ہے۔ قرآن شریف میں ان کا تذکرہ بغیر نام کے ہے۔ سلیمان کی ہم عصر تھی۔ اس کی قوم سورج کی پرستش کرتی تھی۔ سليمان نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے اپنے سرداروں سے مشورہ کے بعد طے کیا کہ سلیمان کا امتحان لیا جائے۔ اگر وہ سچے پیغمبر ہوں تو اُن کا مذہب اختیار کیا جائے۔ چنانچہ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ حقیقت میں پیغمبر ہیں تو اس نے خود ان کے پاس جاکر ایمان لانے کا فیصلہ کیا۔ ملکہ سبا کے سلیمان کے پاس پہنچنے سے قبل سلیمان نے ملکہ سبا کا تخت منگوانے کی خواہش کا اظہار کیا تو آصف بن برخیاہ جو سلیمان کا وزیر تھا اس نے کہا کہ میں آنکھ جھپکنے سے پہلے اس کو لا سکتا ہوں، جسے ان کے پاس دیکھ کر اس کا اعتقاد اور بھی پختہ ہو گیا اور وہ اپنی قوم کے ساتھ ایمان لے آئی۔
مالک رام کی تحقیق۔
مختار مسعود کی کتاب حرف شوق سے ایک اقتباس
جب تورات کا یونانی زبان میں ترجمہ ہوا تو مترجم نے ملکہ سبا کے حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش ہونے اور ان سے گفتگو کرنے کے انداز سے خیال کیا کہ اس کا رویہ ایک ملکہ کے شایان شان نہیں بلکہ کسی آبرو باختہ اور بازاری عورت کاساتھا-لہزہ اس نے اس کے لئے یونانی لفظ پلاکیس (PALLAKIS) کا لفظ استعمال کیا جس کے لغوی معنی قحبہ یا فاحشہ عورت کے ہیں-جب اس یونانی کا عربی میں ترجمہ ہوا تو عربی مترجم نے خیال کیا کہ یہ ملکہ کا نام تھایعنی اسم معرفہ—چونکہ “پ” عربی میں نہیں ہے — اس نے اسے بلقیس بنا دیا-بس پھر کیا تھا- تمام عربی مفسروں نے (اور ان کی تقلید میں فارسی اور اردو دانوں نے بھی) یہ نام لے لیا-اور آج ہم بے دھڑک اپنی بچیوں کے نام بلقیس رکھ لیتے ہیں- یہ تحریر و تحقیق مالک رام کی ہے-
No comments:
Post a Comment