ٹک ٹاک
ٹک ٹاک پہ ویڈیوز بنانے کا شغل نہایت ہی عروج پہ ہے لیکن ابھی تک دیہاتوں میں اس کا استعمال نہایت ہی کم ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے
ٹک ٹاک اب لڑکے بھی استعمال کر کے اپنے اندر کے میراثی پن اور بھانڈ پن کو خوب ابھار رہے ہیں۔ یہی لڑکے جب اپنی کمر کو 360درجے پہ ٹھمکے کی شکل میں گھماتے ہیں پھر اپنے بالوں کو اپنے چہرے پہ جھٹک کر اپنے گورے چٹے ہاتھ سے بال کو واپس اپنی جگہ پر ایڈجسٹ کرتے ہیں تو ٹک ٹاک پہ قیامت سی مچ جاتی ہے اور ساتھ میں لاہور میں یہاں علامہ اقبال رحہ دفن ہیں تو قبر کے اندر انکی روح بھی تڑپ اٹھتی ہو گی کہ میں نے کن جوانوں کو شاہینوں مرد قلندر اور مرد مومن کے القابات سے نواز دیا ہے ۔ اور ساتھ میں اپنا سر ایک ہاتھ پہ رکھ کر سوچتے کہ یہ سارے القابات میں اب کیسے واپس لوں۔
ماں باپ بڑی کو بڑی دعائیوں کے بعد ایک بیٹا عطا ہوتا ہے لیکن بیٹا جانی ٹک ٹاک پہ ایسے ٹھمکے اور ڈانس سٹیپ کرتا ہے کہ شادیوں پہ ناچنے والے کھسرے بھی انھی کی ویڈیوز سے ڈانس کی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
مجھے تو ڈر ہے اگر ٹک ٹاک کا یہ شغل کچھ عرصہ اور چل جاتا ہے تو ایک نئی قسم کی جنس وجود میں آجائے گی جس کو نہ تو میل حضرات شناختی کارڈ پہ میل لکھوانے دیں گے اور نہ ہی فی میل شناختی کارڈ پہ فی میل لکھوانے دیں گی اور تو اور کھسرے بھی ان کو
دیکھ کر اپنا سر شرم سے جھکا دیں گے اور ان کو کھسروں میں شامل کرنے سے انکار کر دیں گے۔
لہذا انکے شناختی کارڈ پہ شناختی علامت میں ٹک ٹاک ڈانس ماسڑ درج کر دیا جائے گا ( جنس کا اچھا سا نام ابھی ذہہن میں نہیں ہے )
نوٹ!! ٹک ٹاک حضرات سے معذرت
No comments:
Post a Comment